Orhan

Add To collaction

لکھ پھر سے تو نصیب میرا

لکھ پھر سے تو نصیب میرا
از سیدہ
قسط نمبر3

وہ بیٹھا انتظار کر رہا تھا اپنے دوستوں کے ساتھ۔۔۔تبھی  دور  سے آتی ذبی دیکھائی۔۔۔۔۔۔
تیری تتلی آرہی ہے۔۔۔۔۔۔ساتھ بیٹھ بابر نے کہا 
میری جان۔۔۔۔۔۔۔ذبی آکر صفوان کے گلے ملی قریب بیٹھ لوگوں  نے بھی موڑ کر دیکھ جیسے وہ گلے لگی تھی
افف کیسے گزارے ہیں مت پوچھو تمہارے بنا یہ دن۔۔۔۔۔
میرا بھی دبئی میں یہی حال تھا اب آگئی ہوں نے ساری تھکن اور تنہائی دور  کردونگی۔۔۔۔۔۔۔ذبی نے صفوان کے گلے میں بہاہیں ڈالتے ہوۓ کہا 
ارے ابھی آے دو منٹ نہیں گزرے ہمیں بھول گئے۔۔۔۔۔۔بابر نے شکوہ کیا 
ہاہاہا نہیں۔۔۔۔۔چلو کچھ آرڈر کرتے ہیں ذبی نے مینیو کارڈ دیکھتے ہوۓ کہا 
سنو ہوٹل میں روم بک کروایا ہے ڈنر کر کے چلتے ہیں صفوان نے ذبی کے کان میں کہا 
لگتا ہے لوگوں کے پیلان ہیں بابر نے چھیڑتے ہوۓ کہا 
بکواس بند کر تو بھی لے جا اپنی والی کو مانا کس نے کیا ہے صفوان نے بابر کے کندھے پہ ہاتھ مارتے ہوۓ کہا 
ابے میری والی ملتی نہیں ہے ہوٹل کیا لے کر جاؤنگا۔۔۔۔۔۔۔
ویسے ہے کون بتایا نہیں تو نے ؟
میری چھوڑ کیا کرے گا جان کر۔۔۔۔۔آرڈر کر آرڈر بابر نے بات گھوما دی 
____________
نمل شایان صاحب کے ساتھ انکے گھر آگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔نمل ان سے ملو یہ ہیں نوری سکینہ نے صوفے کے پاس کھڑی نوری کے تعارف کروا یا 
نمل نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ ایک بڑی عمر کی خاتون تھیں 
حمنہ بیٹا آپ نمل  کواپر روم میں لے جاؤ اور نوری میری بیٹی کے لئے ڈنر لگائیں۔۔۔۔۔۔۔
حمنہ اسے اسکے روم تک لائی۔۔۔۔۔یہ آپ کا روم ہے۔۔۔۔۔۔حمنہ سکینہ کے ساتھ کبھی کبھی آتی جاتی تھی نمل کے گھر تو دونوں میں تھوڑی بہت بات چیت تھی
تم فریش ہوجاؤ۔۔۔۔۔حمنہ کہہ کر نیچے چلی۔۔۔۔۔۔
نمل فریش ہو کر نیچے آئی تو سب کھانے پہ اس ہی کا انتظار کر رہے تھے 
آجاؤ میری بچی ادھر شایان صاحب نے اپنی پڑوس کی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا 
نمل نے خاموشی سے کھانا کھایا ۔۔۔۔سکینہ اور شایان صاحب کے بولنے پر تھوڑی بہت بات کی پھر سونے کا کہہ کر روم میں آگئی 
نیند تو آنے والی نہیں تھی تو مصلہ پیچھا کر بیٹھ گئی نماز سے فرق ہو کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھاۓ 
اے زمیں اور آسمان کے مالک میں تجھ سے اپنے والدین کی مغفرت چاہتی ہوں تو جانتا ہے تو سب جانتا ہے میرے پاس اب تیرے سوا کوئی نہیں میرے مالک میرے والدین تیری مانت تھے تونے واپس لے لیا میرے مالک مجھے صبر دے ۔۔۔۔۔وہ کافی دیر تک اپنے رب کو اپنے دھکڑے سناتی رہی اور وہی سو گئی۔۔۔۔۔۔۔
کانوں میں اذان کے آواز آئی تو آنکھ کھولی پانی کی طلب ہوئی تو کچن میں پانی پینے آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔نمل ابھی کچن سے نکل ہی رہی تھی کے مین دروازے سے صفوان آتا دیکھائی ۔  دیا اسے پہچانے میں تھوڑا وقت لگا کیوں اسے آخری بار سات سال پھلے دیکھا تھا جب وہ سکینہ کو لیکر آیا جب نمل کی امی نے اسے اندر آنے کو کہا تھا جو جواب اس نے دیا تھا وہ نمل کو آج بھی یاد تھا 
میں ایسے غریبوں والے گھر میں آنا اپنی توہین سمجھتا ہوں اور پلیز اگر غلطی سے میں کبھی دوبارہ یہاں آجاتا ہوں تو مجھے اندر آنے کے لئے مت بولیے گا 
نمل نے ایک نظر اسکے ہولیے پہ ڈالی شرٹ کے آگئے کے بٹن کھولے تھے اور جو نشان وہاں تھے وہ اسکی کی گئی عیاشی کا ثبوت تھے نشے کی وجہ سے اسکا وجود لڑکھڑا رہا تھا وہ نمل کے قریب آیا 
کون ہو تم لڑکی۔۔۔۔۔۔میرے گھر میں کیا کر رہی ہوں؟ اسکے منہ سے آنے والی حرام بدبو اور اس سے نمل کو نفرت ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔
صفوان۔۔۔۔۔پیچھے ہٹو۔۔۔۔۔شایان صاحب نے اسے پیچھے ہٹایا 
بے حیا ہو کتنے۔۔۔۔میں اور کچھ بولوں اس سے پھلے دفع ہو جاؤ۔۔۔۔۔
ایک تو گھر میں آؤ نہیں کے آپ شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔شوق نہیں ہے مجھے بھی یہاں کھڑے ہونے کا صفوان بدتمیزی سے جواب دیتا ہوا چلاگیا
معاف کردینا بیٹا یہ میری بے حیا اولاد ہے۔۔۔۔۔شایان صاحب نے شرمندگی سے کہا 
ارے نہیں بڑے معافی نہیں مانگتے۔۔۔۔۔۔۔
میرے بھائی نے بہت اچھی تربیت کی میری بچی۔۔۔۔۔۔جاؤ نماز پڑھ لو وقت نکل رہا ہے 
___________
الہی نماز سے فرق ہو کر امام صاحب سے ملنے آیا تو وہ کچھ جوان لڑکوں کو سمجھا رہی تھے الہی بھی انہی ہے قریب بیٹھ گیا 
بیٹا زندگی میں کبھی بھی تھوڑے سے مزے کے لئے گناہ نہ کرنا کیوں کے مزہ ختم ہو جائے گا لیکن گناہ باقی رہے جائے گا اور کبھی بھی نیکی کرنے کے لئے تھوڑی سی مشقت سے نہ گھبرانا کیوں کے مشقت ختم ہو جائے گی نیکی باقی رہیے جائے گی۔۔۔۔۔۔یہ الفاظ سن کے اسے لگا شاید یہ الفاظ اس ہی کے لئے تھے وہ بھی تو پھلے یہی کرتا رہا تھا اَللّهُ کے خوف سے اسکا دل كانپ اٹھا تھا سارے نو جوان جا چکے تھے وہ کسی بت کی طرح بیٹھا تھا 
الہی!امام صاحب کی آواز پہ اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا اسکی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہی تھے 
کیا ہوا الہی۔۔۔۔۔؟یہ آنکھوں میں آنسوں کیسے۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی بات پہ میرا دل کانپ اٹھا۔۔۔۔۔۔میں بھی تو اس پاک رب سے ملنے سے پھلے یہی کرتا رہا تھا میں تو اتنا گناہگار ہو کے سوچتا ہوں کے بخشا جاؤنگا کے نہیں۔۔۔۔۔۔ اَللّهُ کے خوف اور گناہ کی ندامت کی وجہ سے وہ کسی بچے کی طرح رو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
میرے بچے وہ رب رحمن ہے رحیم ہے وہ تو خود کہتا تم چل کر آو میں دوڑ کر آونگا لیکن تو آتو سہی روز یہ سمندر اس سے پوچھتے ہیں کے تیرے یہ بندے اتنے گناہ کرتے ہیں دے اجازت کے ہم ان پہ چڑ جائے یہ زمین روز پوچھتی ہے دے اجازت انکو اپنے اندر لے کر نستونابوت کردو فرشتے روز پوچھتے ہیں دے اجازت کے ختم کردیں انھیں۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن میں قربان جاؤں اس رب پہ اسکی رحمت پہ وہ کہتا ہے میں اپنے بندے کی توبہ کے انتظار میں ہوں۔۔۔۔۔۔یہ میرے بندے اور میرا معملہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹا وہ تو اتنا رحم کرنے والے ہے تمھیں پتا ہے وہ جتنا بھی ناراض ہو تم کتنے بھی نافرمان ہو۔۔۔۔۔۔بس ایک بار اگر تم سچے دل سے کہہ دو نہ اَللّهُ مجھے معاف کردے میری توبہ یقین جانو وہ معاف کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔۔۔۔۔۔۔اس پوری کائنات میں صرف واحد اس رب کی پاک ذات ہے جو اتنی جلدی معاف کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔امام صاحب کی باتیں اسکے سیدھے دل میں اتر رہی تھی 
میں نے تو اس رب سے معافی مانگی  ہے اور مجھے یقین ہے وہ مجھے معاف بھی کردے گا لیکن میں نے تو۔۔۔۔۔۔۔اسکے  بندے کو۔۔۔۔۔۔آگئے ندامت کی وجہ سے اسکے منہ سے لفظ ادا نہ ہوۓ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے پتا ہے الہی۔۔۔۔۔۔تم سالوں سے اسے ڈھونڈ رہے ہو لیکن میرے بچے جب تک وقت نہیں آتا نا ملاقات کا تم اسے زمین کے تہہ سے لے کر آسمان کی چھت تک میں کیوں نہ ڈھونڈ لو وہ تمہیں نہیں ملے گی اور جب ملاقات کا وقت آے گا تو وہ بند دروازے بھی تھوڑ کر تمہارے سامنے حاضر ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن شرط یہ ہے کے تم اس رب کی ذات پہ یقین رکھ کر ملاقات کا انتظار کرو 
وہ خاموشی سے انکی باتیں سن رہا تھا یہ تو اکثر ہوتا تھا وہ کتنی کتنی دیر تک انکے پاس بیٹھ  کرباتیں سنتا رہتا تھا 
____________
صفوان صبح ناشتہ کے لئے آیا تو نمل کو سکینہ کے ساتھ بیٹھا دیکھا تو خود بھی اسکے سامنے کرسی پہ بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔صفوان اپنے سامنے بیٹھی نمل کو غور سے دیکھ رہا تھا بڑی بڑی کالی آنکھیں گلابی چہرہ جس پہ نماز کی طرح دوپٹہ بندھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے کتنے دن رہی گی یہ یہاں۔۔۔۔۔صفوان نے کھاتے ہوۓ پوچھا۔۔۔۔۔ 
بھائی یہ اب یہیں رہیں گی۔۔۔۔۔حمنہ نے مسکرا کر جواب دیا 
اوہو اچھا جی۔۔۔۔۔ویسے بہت سالوں بعد دیکھا ہے اسے۔۔۔۔۔
ظاہر سی بات ہے جب اپنے چچا کے گھر جاؤ گے نہیں تو اپنی کزن کو سالوں بعد ہی دیکھو گے۔۔۔۔۔۔شایان صاحب نے طنز کا تیر چلایا 
نمل کو دیکھ کر صفوان کا شیطانی دماغ چل رہا تھا اس ہی لئے کچھ جواب نہیں دیا 
ڈیڈ!!!!!!میں آج سے آپ کے ساتھ آفس جاؤنگا۔۔۔۔۔صفوان کے علان پہ سب کو حیرت کا جھٹکا لگا۔۔۔۔۔
میرے کان درست سن رہی ہیں نہ سکینہ۔۔
جی آپ اور ہم سب کے کانوں نے درست سنا۔۔۔۔۔میں تیار ہو کر آتا ہوں صفوان کہہ کر چلا گیا 
خیریت تو ہے اسے کیا ہوگیا ہے۔۔۔۔سکینہ نے شایان صاحب سے پوچھا 
میں بھی وہی کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔
لگتا ہے نمل کے مبارک قدموں کا کمال ہے حمنہ نے کہا 
میرے؟نمل کو سمجھ نہ آئی 
مجھے بھی یہی لگ رہا ہے شایان صاحب نے مسکرا کرکہا 
_________
وہ بستر پہ لیٹی سونے کی کوشش کر رہی تھی لیکن نیند آنکھوں سے کوسو دور تھی اٹھ کر کھڑکی کے پاس آئی آسمان کے جانب دیکھا تو خود ہی آنکھوں سے آنسوں نکل آے 
یہ درد کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا جس انسان کو اپنا سب کچھ سمجھا اس نے ایسا سمجھایا کے کہیں کا نہیں چھوڑا  بنا کسی قصور کے ایسی سزا ملی مجھے سمجھ نہیں آتا کیا کروں اس انسان سے نفرت بھی نہیں  کی جاتی اور وہ بھولیا بھی نہیں جاتا تو جانتا ہے میں تنہا ہو مجھے تیرا سہارا چاہیے بس وہ آسمان۔پہ دیکھے ایسے باتیں کر رہی تھی جیسے وہ سب سن رہا تھا اور بیشک جب کوئی نہیں سنتا تو وہی سنتا ہے 
____________
صفوان کلب میں بیٹھا تھا۔۔۔۔ہیرو خیر تو ہے آج کل بہت مصروف رہتا ہے۔۔۔۔۔ساتھ بیٹھے شافع نے کہا
میں بھی یہی پوچھنے والا تھا۔۔۔۔بابر نے کہا 
تیرا بھائی ایک بڑی انٹچ حسینہ  کو پھسانے میں لگا ہوا ہے۔۔۔۔صفوان نے سیگریٹ کا دھوا اڑاتے ہوۓ کہا 
کیا مطلب؟۔۔۔۔۔بابر نے کہا 
مطلب میری ایک کزن میرے ہی گھر میں رہے گی اب بیچاری ہے اماں ابا اپر چل دیے ہیں۔۔۔۔۔صفوان نمل کی یتیمی کا مذاق بناتے ہوۓ کہا 
بڑی ہی کوئی دیندار ہے تو اسکو اسکی ہی طرح ہینڈل کرونگا اور ویسے بھی یار یہ یوز کیی ہوئی لڑکیاں اب اچھی نہیں لگتی اب فریش کچھ چاہیے
ویسے اسی لڑکیاں بنا شادی کے ہاتھ نہیں آتی۔۔۔
فکر نہیں بابر شادی بھی کر لیں گے۔۔۔۔۔
اور ذبی کا کیا؟ چپ بیٹھے شافع نے کہا 
وہ تو تتلی ہے میری۔۔۔۔۔۔
ویسے یہ بہت غلط بات ہے تونے جن لڑکیوں کے ساتھ جو بھی کیا وہ آل ریڈی ویسی تھیں لیکن صفوان اسکا دامن پاک ہے کیوں داغدار کر رہا ہے 
تجھے کیا ہوگیا شافع تو کیوں مولوی بن گیا ۔۔۔۔
تم لوگو ٹھیک نہیں کر رہی ہو۔۔۔۔شافع اٹھ کر باہر چلا گیا 

   1
0 Comments